class 11th urdu chapter 1 question answer
ہندو مسلمان ایک قوم ہے – سر سید احمد خان
آپ بتائیے
سوال- سر سید احمد خان کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟
جواب – سر سید احمد خان کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 عیسوی کو دلی میں ہوئی تھی-
سوال – سر سید احمد خان کے اردو رسالے کا نام کیا تھا یہ کب سے شائع ہونا شروع ہوا؟
جواب – سر سید احمد خان کے اردو رسالے کا نام تہذیب الاخلاق تھا یہ رسالہ اکتوبر 1870 میں شائع ہونا شروع ہوا تھا
سوال – علی گڑھ میں قائم ہونے والے ان کے مدرسے کا کیا نام تھا یہ مدرسہ کب قائم ہوا؟
جواب – علی گڑھ میں سر سید احمد خان نے مدرسۃ العلوم کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا تھا جسے محمدن اینگلو اورینٹل اسکول اور کالج بھی کہتے ہیں یہی مدرسہ ان کے مرنے کے بعد ترقی کرتے ہوئے 1920 عیسوی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا- یہ مدرسہ 1875 میں قائم کیا گیا تھا
سوال – 1857 کے غدر کے متعلق لکھی ہوئی ان کی کتاب کا کیا نام ہے؟
جواب – سر سید احمد خان نے 1857 کے غدر کے متعلق جو کتاب لکھی تھی اس کا نام اسباب بغاوت ہند ہے
سوال – کیا سر سید ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرتے تھے؟
جواب – سر سید احمد خان ہندو مسلم اتحاد کی پرزور حمایت کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان ایک دلہن کے مانند ہیں جس کی خوبصورت اور رسیلی انکھیں ہندو اور مسلمان ہیں اگر یہ دونوں اپس میں اتفاق نہیں رکھیں گے تو یہ پیاری دلہن بھینگی ہو جائے گی
سوال – ہندوستان ایک دلہن کے مانند ہیں انہوں نے یہ بات کیوں کہی؟
جواب – سر سید احمد خان کا کہنا تھا کہ ہندوستان ملک ایک دلہن کے مانند ہے جس کی خوبصورت اور رسیلی انکھیں ہندو اور مسلمان ہیں- اگر وہ دونوں اپس میں نفاق رکھیں گے تو وہ پیاری دلہن بھینگی ہو جائے گی- اور اگر ایک دوسرے کو برباد کریں گے تو وہ کانی بن جائے گی اس لیے اے ہندوستان کے رہنے والے ہندو مسلمانوں اب تم کو اختیار ہے کہ چاہے اس دلہن کو بھینگا بناؤ چاہے کانا بناؤ-
مختصر گفتگو
سوال – ملک کی ترقی کے لیے سر سید ہندو مسلم اتحاد کو کیوں ضروری خیال کرتے تھے؟
جواب – سر سید احمد خان کا ماننا تھا کہ ہندوستان ملک کی ترقی تبھی ممکن ہے جب یہاں کی دو قومیں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے رہیں- وہ کہتے ہیں کہ اگر ہندوستان ایک دلہن ہے تو ہندو اور مسلمان اس کی خوبصورت انکھیں ہیں- مجھے وہ کام جس طرح سے بنا دونوں انکھوں کے کسی دلہن کی خوبصورتی برقرار نہیں رہ سکتی ٹھیک ویسے ہی اگر ہندوستان کے اندر ہندو اور مسلمان مل کر رہیں تو اس ملک کی خوبصورتی اور ترقی میں چار چاند لگ سکتے ہیں- سر سید احمد خان یہ بھی کہتے ہیں کہ بے شک انسانوں میں کبھی کبھی آپس میں ناتفاقی ہو جانا رنج ہو جانا ایک قدرتی بات ہے- یہاں تک کہ بھائی بھائی میں باپ بیٹوں میں ماں بیٹیوں میں بھی رنج ہو جاتا ہے لیکن اس رنج کو قائم رکھنا اور اسے پکائے جانا یا بڑھائے جانا یہ ہمارے ملک ہمارے قوم سب کے لیے بہت نقصان دہ ہیں- ہندوستان کی ترقی تبھی ممکن ہے جب ہندو اور مسلمان اپسی نہ اتفاقیوں کو بھول کر محبت سے ایک ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں-
سوال – ہندوستانی قومیت کے فروغ میں سر سید کی خدمات واضح کیجئے
جواب – سر سید احمد خان نے اپنے وطن اور اپنے ابنائے وطن خاص طور سے مسلمانوں کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں مسلمانوں کو غدر کے صدمے کو بھلا کر جدید تعلیم کی جانب رغبت دلانے والے سر سید ہی تھے- انہوں نے ملک و قوم کے تمدن کے لیے تہذیب الاخلاق کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا- ساتھ ہی انہوں نے 1875 عیسوی میں مدرسۃ العلوم کی بنیاد ڈالی جو ان کے مرنے کے بعد ترقی کرتے ہوئے 1920 عیسوی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا- انہوں نے کئی یادگار اور تاریخی کتابیں بھی لکھی اور کثیر تعداد میں اصلاحی مضامین بھی قلم بند کیے- ان کی ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں اردو نثر کا باوا ادم بھی کہا جاتا ہے- سر سید احمد خان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انگریزی حکومت نے انہیں سر کے خطاب سے بھی نوازا تھا جو ان کے نام کا حصہ بن گیا-
سوال – سر سید کی حیات کے تعلق سے اپ کیا جانتے ہیں بتائیے؟
جواب – سر سید احمد خان کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 عیسوی کو دلی میں ہوئی تھی ان کے والد کا نام میر متقی اور دادا کا نام سید ہادی تھا- سر سید احمد خان بے حد معزز اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے- ان کی ابتدائی تعلیم ان کی ماں عزیز النساء بیگم کے ذریعے ہوئی جنہوں نے قران کریم کے چند پارے اور اردو کی ابتدائی کتابیں انہیں پڑھائیں-
سر سید احمد خان کی شادی 1836 عیسوی میں 19 برس کی عمر میں پارسہ بیگم سے ہوئی تھی- انہوں نے 1875 عیسوی میں مدرسۃ العلوم کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی تھی جو ان کے مرنے کے بعد ترقی کرتے ہوئے 1920 عیسوی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا جو اج بھی ہندوستان کے ایک مقبول و معروف ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے سر سید کا انتقال 27 مارچ 1898 کو ہوا تھا انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہی دفنایا گیا ہے-
سوال – ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین محبت پیدا کرنے کے لیے کس طرح کی پیش قدمی پر سر سید نے زور دیا ہے؟
جواب – سر سید احمد خان کہتے ہیں کہ بے شک انسانوں میں کبھی کبھی اپسی نہ اتفاقی پیدا ہو جانا رنج پیدا ہو جانا ایک قدرتی بات ہے- یہ صرف ہندو اور مسلمانوں پر ہی موقوف نہیں ہے اپس میں ہندو ہندوؤں میں مسلمان مسلمانوں میں بھائی بھائیوں میں باپ بیٹوں میں ماں بیٹیوں میں رنج ہو ہی جاتا ہے- مگر اس رنج کو قائم رکھنا اور پکائے جانا اور بڑھائے جانا انسان کی ملک کی قوم کی خاندان کی بدبختی ہے- کتنے مبارک ہیں وہ لوگ جو معافی چاہتے ہیں اور معاف کرتے ہیں اور اپنے دل کی گرہ کو کھولتے ہیں جو محبت کے رشتوں میں اتفاق سے پڑ گئی ہے- ایسے پیش قدمی کرنے والے لوگ اپنے بھائیوں اپنے ہم وطنوں سے بے قصور ہونے پر بھی معافی چاہتے ہیں اور محبت کے رشتوں کو ٹوٹنے نہیں دیتے- ٹھیک یہی طریقہ اور اسی طرح کی پیش قدمی ہمیں بھی کرنی چاہیے تاکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ محبت بنی رہے –