class 11th urdu chapter 2 question answer
بہ نام میر مہدی مجروح
آپ بتائیے
سوال 1۔ غالب نے کس کو کہا کہ تم میرے ہم عمر نہیں ہو؟
جواب۔ غالب نے میر مہدی مجروح کو کہا کہ تم میرے ہم عمر نہیں ہو۔
سوال 2۔ میر مہدی مجروح کی تاریخ پیدائش اور مقام پیدائش لکھیے۔
جواب۔ میر مہدی مجروح 1833 کے آس پاس دہلی کے محلہ اردو بازار میں پیدا ہوئے جو لال قلعہ اور جامع مسجد کے بیچ میں واقع ہے۔
سوال 3۔ حالی کے علاوہ کسی دوسرے شاگرد نے بھی کیا غالب کا مرثیہ لکھا تھا؟
جواب۔ الطاف حسین حالی کے علاوہ میر مہدی مجروح نے غالب کی موت پر شخصی مرثیہ لکھا تھا۔
سوال 4۔ میر مہدی مجروح کی وفات کب ہوئی؟
جواب۔ میر مہدی مجروح کی وفات 15 مئی 1903 کو ہوئی تھی۔
سوال 5۔ غالب نے اردو خطوط زندگی کے اغاز میں لکھے یا اخری زمانے میں؟
جواب۔ مرزا غالب نے اردو خطوط اپنی زندگی کے اخری دور میں لکھے تھے۔
سوال 6۔ غالب نے کن کن زبانوں میں شاعری کی؟
جواب۔ غالب نے اردو اور فارسی زبان میں شاعری کی ہے۔
سوال 7۔ غالب کے خطوط کے دو مجموعوں کے نام بتائیے۔
جواب۔ غالب کے خطوط کے دو مجموعے درج ذیل ہیں- عود ہندی اور اردو معلی۔
مختصر سوال
سوال 1۔ غالب نے نامہ نگاری کا کون سا نیا ائین بنایا اپ اس کے پانچ خصوصیات واضح کیجئے۔
جواب۔ استاد جی غالب نے شاعری کے ساتھ ساتھ نصر نگاری میں بھی اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔ ان کی شاعری کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن وہ اردو کے صاحب طرز نصر نگار اور بے مثال مکتوب نگار بھی ہیں۔ غالب نے خود کہا ہے کہ میں نے مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ غالب کی نامہ نگاری کا یہ بڑا کمال ہے کہ انہوں نے دو لوگوں کے بیچ مراسلے کو گفتگو جیسا بنا دیا جیسے کہ دونوں شخص امنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے ہوں۔ انہوں نے رسمی انداز کی باتوں یا تکلفانہ ماحول کے لیے خطوط میں زیادہ گنجائش قائم نہیں ہونے دی۔ کام کی باتوں کو سادہ صاف اور عام فہم انداز میں لکھ دیا جائے یہی خطوط نویسی کا مقصد ہے اور غالب اسی اظہار واقعی کو اہمیت دیتے ہیں۔ غالب اپنے خطوط میں غیر ضروری القاب و اداب یا تکلفات سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنے ڈھالے اور بنائے ہوئے القاب ضرورت بھر اختصار کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے واہ القاب یا اداب عمومی کے بجائے خصوصی ہو جاتے ہیں۔ غالب کی نامہ نگاری کی ایک بڑی خصوصیت تو یہ ہے کہ اپنی بےچارگی غریبی اور بیماری کے حالات میں بھی وہ ہنسنے ہسانے کے موقع ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ان کے خطوط ان کی شخصیت اور انداز تحریر کہ ان خصوصیات سے مالا مال ہے۔
سوال 2۔ غالب کی حیات سے متعلق 10 جملے لکھیے۔
جواب۔ مرزا غالب کا پورا نام اسد اللہ بیگ خان تھا۔ غالب کا لقب مرزا نوشہ اور ان کا خطاب نجم الدولہ دبیر الملک جنگ شاہی تھا۔ غالب کی پیدائش اپنے ننیہال اگرہ میں 27 دسمبر 1797 کو ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام مرزا عبداللہ بیگ اور والدہ کا نام عزت النساء بیگم تھا۔ غالب ابھی چھوٹے ہی تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ والد کے انتقال کے بعد ان کے چچا نصراللہ بیگ خان نے انہیں اپنی سرپرستی میں لے لیا لیکن چند برسوں کے بعد ان کے چچا بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
13 برس کی عمر میں غالب کی شادی الٰہی بخش خاں معروف کی بیٹی اُمراؤ بیگم سے ہوئی شادی کے کچھ برسوں بعد سے انہوں نے دہلی میں سکونت اختیار کر لی۔ دہلی میں انہیں مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خاندانی پینشن کے سلسلے میں انہوں نے کلکتہ کا سفر بھی کیا لیکن انہیں نامرادی ہاتھ لگی۔ حالانکہ کیلئے معلی سے پینشن شروع ہونے کے بعد انکے مالی حالات میں کافی سدھار ہوا۔ لیکن 1857 کے غدر نے ان کے مالی حالات کو اور بدتر بنا دیا۔ غالب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی ایا تھا جب مجھے اپنے گھر کے کپڑوں کو بیچ بیچ کر کھانا خریدنا پڑتا تھا گویا کہ اور لوگ کھانا کھاتے تھے اور ہم کپڑے کھاتے تھے۔ اسی پریشانی اور کسمپرسی کے عالم میں 15 فروری 1869 کو غالب کا انتقال ہو گیا۔
سوال 3۔ غالب نے مکتوب نگاری کے لیے کون سے عناصر لازمی قرار دیے ہیں؟
جواب۔ مکتوب نگاری کے بارے میں غالب نے کہا ہے کہ میں نے ائین نامہ نگاری چھوڑ کر مطلب نویسی پر مدار رکھا ہے۔ جب مطلب ضروری التحریر نہ ہو تو کیا لکھوں۔ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ رسمی انداز کی باتوں یا تکلفانہ ماحول کے لیے خطوط میں زیادہ گنجائش نہیں ہوتی کام کی باتوں کو سادہ صاف اور عام فہم انداز میں لکھ دیا جائے یہی خطوط نویسی کا مقصد ہے۔
غالب نے ایک جگہ اور لکھا ہے پیر و مرشد یہ خط نہیں لکھنا ہے باتیں کرنی ہیں اور یہی سبب ہے کہ میں القاب و اداب نہیں لکھتا۔ ایک جگہ اور غالب کہتے ہیں کہ مکتوب الیہ کو اس کی حیثیت کے مطابق پکارتا ہوں۔ یہاں غالب نے مکتوب نگاری میں ایک اور انصر کا ہونا لازمی قرار دیا کہ غیر ضروری القاب و اداب یا تکلفات سے پرہیز کرنا چاہیے اور اپنے ڈھالے اور بنائے ہوئے القاب ضرورت بھر اختصار کے ساتھ استعمال میں لانا چاہیے۔
سوال 4۔ غالب نے دلی کو شہر خموشاں کیوں کہا ہے؟
جواب۔ لفظ شہر خاموشاں قبرستان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ غالب اپنے خط میں کہتے ہیں کہ دہلی شہر بالکل چپ چاپ ہے۔ نہ کہیں پھاوڑا بجتا ہے نہ سرنگ لگا کر کوئی مکان اڑا جاتا ہے نہ اہنی سڑک بنتی ہے نہ کہیں دمدمہ بنتا ہے۔ کسی کو کسی کی فکر نہیں ہے کوئی کسی کی خوشی اور غم میں شریک نہیں ہوتا۔ اس لیے دہلی شہر جیسا نہیں بلکہ قبرستان جیسا ہے۔