class 12th urdu chapter 1 question answer

نظیر احمد کی کہانی

آپ بتائیے

سوال- اردو کا پہلا باضابطہ خاکا کون سا ہے؟
جواب – ڈاکٹر نظیر احمد کی کہانی کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی
سوال – اردو کا پہلا خاکہ نگار کون ہے؟
جواب – فرحت اللہ بیگ
سوال – نظیر احمد فرحت اللہ بیگ کے کون تھے
جواب – استاد
سوال ـ فرحت اللہ بیگ کے ساتھ مدرسے میں کون تھے؟
جواب – میاں دانی
سوال – نظیر احمد کا تعلق کس صنف سے ہے؟
جواب – ناول

مختصر گفتگو

class 12th urdu chapter 1 question answer

سوال ـ فرحت اللہ بیگ اور میاں دانی مولوی صاحب کے گھر کیوں جاتے تھے ؟
جواب ـ فرحت اللہ بیگ اور میاں دانی ڈاکٹر نذیر احمد یعنی مولوی صاحب کے گھر پڑھنے کے لیے جاتے تھے ۔
سوال – کس عربی شاعر سے متعلق سبق کو پڑھانے کے دوران میاں رضا کی چھٹی ہو گئی؟
جواب ـ متنّبی نام کے عربی شاعر سے متعلق سبق کو پڑھانے کے دوران میاں رضا کی چھٹی ہو گئی تھی۔
سوال ـ فرحت اللہ بیگ شعر خوانی میں کس طرح کی غلطیاں کرتے تھے؟
جواب ـ فرحت اللہ بیگ شعر خوانی میں اعراب کی غلطیاں ہمیشہ کرتے تھے۔ کہاں کا اعراب کہاں لگا دیا کرتے تھے۔ نثر تو سنبھال لیتے تھے پر نظم میں دقّت ہوتی تھی۔
سوال ـ مولوی صاحب کے پڑھانے کا کیا طریقہ تھا؟
جواب ـ مولوی صاحب کے پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک دن مرزا فرحت اللہ بیگ پڑھتے تھے تو ایک دن میاں دانی پڑھا کرتے تھےـ مولوی صاحب انکے نثر اور شعر پڑھنے کے طریقے کو سدھارا کرتے تھےـ

تفصیلی گفتگو

class 12th urdu chapter 1 bihar board

سوال ـ مولوی صاحب اپنے شاگردوں سے کیوں غصہ ہو گئے تھے؟
جواب ـ مولوی صاحب اپنے شاگردوں کی غلطی پر غصّہ ہو گئے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دِن فرحت اللہ بیگ اور میاں دانی مولوی صاحب سے پڑھ رہے تھے۔ اس دن پڑھنے کی باری فرحت اللہ بیگ کی تھی۔ انہوں نے ایک شعر پڑھا اور کہاں کا اعراب کہاں لگا دیا۔ مولوی صاحب نے کہا ہیں! کیا پڑھا؟ انہوں نے سمجھا کہ اعراب میں کہیں ضرور کوئی غلطی ہوئی ہےـ تمام اعراب کو بدل کر شعر موزوں کر دیا۔ انہوں نے پھر بڑے زور سے “ہوں” کی۔ بیگ نے پھر اعراب بدل دیئے ۔ اس بات پر مولوی صاحب کو غصہ آ گیا کہا دانی! تم تو پڑھو۔ اب میاں دانی نے شعر کا گلا ہی گھونٹ دیا۔ بھلے چنگے شعر کو نثر بنا دیا۔
پھر کیا تھا مولوی صاحب کا پارہ 110 ڈگری چڑھ گیا بہت غصہ ہوئے کتاب اٹھا کر جو پھینکی تو کمرے سے گزر کر، دالان میں سے ہوتی ہوئی صحن میں جا پہنچی۔ اور نہایت غصیلی آواز میں کہا نکل جاؤ! ابھی میرے گھر سے نکل جاؤـ نہ تم مجھ سے پڑھنے کے قابل ہو اور نہ میں تمہارے پڑھانے کے لائق۔ اس وقت مولوی صاحب کی حالت یہ تھی کہ بالکل شیر کی طرح بپھر رہے تھے ۔

سوال ـ فرحت اللہ بیگ نے اپنے استاد سے کیا سیکھا ؟
جواب ـ فرحت اللہ بیگ نے اپنے استاد نظیر احمد سے بہت کچھ سیکھا اور ان سے بے حد متاثر ہوئے۔ فرحت اللہ بیگ نے اپنے پڑھنے کے زمانے میں ڈپٹی نظیر احمد کی شخصیت کے الگ الگ پہلوؤں اور اُن کی خصوصیات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اپنے استاد کا خاکا لکھ کر فرحت اللہ بیگ نے اردو میں خاکہ نگاری کی ایسی مستحکم بنیاد ڈالی کہ اردو میں اس صنف کے سینکڑوں قدردان پیدا ہو گئے۔ اگر آج خاکا نگاری میں فرحت اللہ بیگ کا نام لیا جاتا ہے یا خاکا نگاری کی بنیاد ڈالنے کا سہرا ان کے سر باندھا جاتا ہے تو کہیں نہ کہیں اس کے لیے نظیر احمد بھی تعریف کے قابل ہیں کیونکہ مرزا فرحت اللہ بیگ، نظیر احمد کے ہی شاگرد تھے۔
مرزا فرحت اللہ بیگ نے نظیر احمد کی شخصیت میں کچھ قابل ذکر خصوصیات دیکھی تھی اور انہی کو دلچسپ انداز میں انہوں نے اس خاکا میں بیان کر دیا ہے۔

سوال ـ فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری کے بارے میں لکھیے
جواب ـ نظیر احمد کی کہانی مرزا فرحت اللہ بیگ کا لکھا ہوا خاکا ہے۔ اردو خاکا نگاری کا باقاعدہ آغاز مرزا فرحت اللہ بیگ سے ہوا۔ انہوں نے نظیر احمد کا خاکا لکھ کر اردو میں خاکا نگاری کی بنیاد ڈالی۔ خاکا نگاری نثری ادب کی ایک دلکش صنف ہے۔ اس کا آرٹ غزل اور افسانے کے آرٹ سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔
خاکا نہ سیرت نگاری ہے نہ سوانح عمری۔ یہ کسی دل آویز شخصیت کی دھندلی سی تصویر ہے۔ اس میں نہ اس کی زندگی کے اہم واقعات کی گنجائش ہے۔ نہ خاص خاص تاریخوں کی اور نہ زیادہ تفصیل کی۔ مصنف نے کسی شخص میں کچھ قابل ذکر خصوصیات دیکھی ہوں اور وہ انہیں دلچسپ انداز سے بیان کر دے تو یہی خاکہ ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنے استاد کا خاکا لکھ کر اردو میں خاکا نگاری کی ایسی مستحکم بنیاد ڈالی کہ اردو میں اس صنف کے سینکڑوں قدردان پیدا ہو گئے۔

جب تک کوئی دھکّے دے کر نہ نکالےگا ، اس وقت تک تو ہم جاتے نہیں اور جائینگے تو ابھی پھر آ جائینگے۔
سوال ـ یہ قول کس کا ہے؟
جواب ـ یہ قول مرزا فرحت اللہ بیگ خاں کا ہے۔
سوال ـ اِس قول میں دھکّے دینے کی بات کیوں کہی گئی ہے؟
جواب ـ اپنے شاگرد فرحت اللہ بیگ اور میاں دانی کی غلطیوں پر مولوی نظیر احمد بے حد غصّہ ہو گئے تھے۔ اُنہونے غصے میں دونوں کو اپنے گھر سے نکل جانے کو کہا۔ اور آئندہ اپنی شکل نہ دکھانے کو کہا۔ اس وقت مولوی صاحب کے غصّے کا یہ عالم تھا کہ بالکل شیر کی طرح بپھر رہے تھے۔ مولوی صاحب کے گھر سے نکل جانے کی بات پر فرحت اللہ بیگ نے کہا تھا کہ جب تک کوئی دھکّے دے کر نہ نکالےگا ، اس وقت تک تو ہم جاتے نہیں اور جائینگے تو ابھی پھر آ جائینگے۔

خدا محفوظ رکھے! تم جیسے شاگرد بھی کسی کے نہ ہونگے۔ شاگرد کیا ہوئے، اُستاد کے اُستاد ہو گئے۔ اچّھا بھئی میں ہارا، میں ہارا۔ اچّھا خدا کے لیے کتاب اُٹھا لاؤ اور سبق پڑھ کر میرا پنڈ چھوڑو۔
سوال ـ یہ قول کس کا ہے؟
جواب ـ یہ قول مولوی نظیر احمد کا ہے۔
سوال ـ یہ بات کس سے کہی گئی ہے ؟
جواب ـ یہ بات مرزا فرحت اللہ بیگ اور میاں دانی سے کہی گئی ہے ۔
سوال ـ اس قول میں کس سے چھٹکارا پانے کی بات کہی گئی ہے ؟
جواب ـ اس قول میں نظیر احمد نے اپنے شاگردوں فرحت اللہ بیگ اور میاں دانی سے چھٹکارا پانے کی بات کہی ہے ۔
سوال ـ اِس قول میں کون کس کا اُستاد ہو جاتا ہے؟
جواب ـ اِس قول میں مرزا فرحت اللہ بیگ اور میاں دانی، مولوی نظیر احمد کے اُستاد ہو جاتے ہیں۔

Next Chapter 2 – مٹی کا تیل

error: Content is protected !!
Scroll to Top